چڑیا پانی پینے آئی لیکن کوئی بات نہ کی
میں اس کو اک لڑکی کی تصویر دکھانا چاہتا تھا
پاس بٹھا کر کوئی ادھورا گیت سنانا چاہتا تھا
اس کے پروں کو اپنے جیون پر پھیلانا چاہتا تھا
تھوڑی دیر کو دھرتی سے امبر پر جانا چاہتا تھا
چڑیا پانی پینے آئی لیکن کوئی بات نہ کی
شام سے پہلے وہ بھی اپنے گھر کو جانا چاہتی تھی
رنگ برنگے تنکوں سے اک خواب بنانا چاہتی تھی
چاند ستاروں کو سورج کو ہاتھ لگانا چاہتی تھی
پانی پی کے وہ بھی اک بادل بن جانا چاہتی تھی
نظم
نظم
ذیشان ساحل