ریلوے لائن اسٹیشن سے
میرے دل تک آتی ہے
لیکن ٹرین ہمیشہ آ کر
اک پل پر رک جاتی ہے
کوئی ستارہ انجن بن کے
چلتا رہتا ہے
چاند بھی اک چمنی کے نیچے
چلتا رہتا ہے
جانے کیوں پھولوں کا
رنگ بدلتا رہتا ہے
سرد ہوا میں شبنم
پتوں پر لہراتی ہے
چھپی ہوئی اک چڑیا
مدھم گیت سناتی ہے
نظم
نظم
ذیشان ساحل