میں نے اک خواب اک لفافے میں
تمہیں سب سے چھپا کے بھیجا تھا
اس کے ہمراہ ایک کاغذ پر
کسی بادل کا سرمئی ٹکڑا
سرخ پھولوں کے ساتھ رکھا تھا
وہ تمہیں کیوں نظر نہیں آیا
اپنے کمرے کی بند کھڑکی سے
تم ستاروں کو دیکھ لیتی ہو
تیز بارش میں اک سمندر کے
ان کناروں کو دیکھ لیتی ہو
جو کسی کو نظر نہیں آتے
جو کبھی اپنے گھر نہیں جاتے
ان پرندوں کو یاد کرتی ہو
وہ بھی اک خواب دیکھ سکتے ہیں
یہ تمہیں کیوں نہیں بتایا گیا
نظم
نظم
ذیشان ساحل