موت اور زندگی کی سرحد پر
وہ کسی سے نہیں ملے لیکن
ان کے جانے کے بعد لوگوں نے
پھول دیوار کے قریب رکھے
مشعلیں سیڑھیوں پہ روشن کیں
ایک موہوم سی امید میں گم
لڑکیوں کی سیاہ آنکھوں سے
آنسوؤں کی قطار چلتی رہی
جانے والوں کے غم میں تیز ہوا
ہر طرف سوگوار چلتی رہی
زندگی ان کے گھر کے رستے پر
جانے کیوں بار بار چلتی رہی
نظم
نظم
ذیشان ساحل