تم نے کتاب کھول کے دیکھی نہیں ابھی
اس میں تمہارے بارے میں اک اور نظم ہے
اس نظم میں سفید گلابوں کا ذکر ہے
آنکھوں میں قید ریشمی خوابوں کا ذکر ہے
اے دل ہر ایک بار یہ خوابوں کی بات کیوں
تکیے کے پاس بند کتابوں کی بات کیوں
ہر رات آسماں پہ ستاروں سے بات کر
دریا کو تو نہ چھیڑ کناروں سے بات کر
کرتا ہے کون روز ستاروں سے گفتگو
ہوگی نہیں خزاں میں بہاروں سے گفتگو
کچھ دیر اس کی یاد میں خاموش رہ کے دیکھ
جس نے کتاب کھول کے دیکھی نہیں ابھی
نظم
نظم
ذیشان ساحل