EN हिंदी
نظم تکمیل | شیح شیری
nazm takmil

نظم

نظم تکمیل

علینا عترت

;

کہیں پہ دور کسی اجنبی سی گھاٹی میں
کسی کا ایک حسیں شاہکار ہو جیسے

مصوری کی اک عمدہ مثال لگتی تھی
کوئی عنایت پروردگار ہو جیسے

یہ زندگی کی ہر اک رنگ سے تھی بیگانی
خیال و خواب کی باتوں سے تھی وہ انجانی

بنانے والے نے اس کو بنا کے چھوڑا تھا
اور اس کے چہرے پہ اک نام لکھ کے چھوڑا تھا

نہ دی زباں نہ کوئی آئینہ دیا اس کو
بنا کے بت یوں زمیں پر سجا دیا اس کو

اسے زمانے کی باتوں سے کچھ گلہ ہی نہ تھا
سواے جسم کے احساس کچھ ملا ہی نہ تھا

پھر ایک روز کسی نرم نرم جھونکے نے
کہا یہ کان میں آ کر بہت ہی چپکے سے

ذرا سا آنکھوں کو کھولو تو تم کو دکھلاؤں
مہکتی زندگی کیسے ہے تم کو سکھلاؤں

کہاں سے آئی ہو کب سے یہاں کھڑی ہو تم
مرے وجود کے ہر رنگ سے جڑی ہو تم

یہ گنگناتی ہوئی وادیاں یہ گل کاری
ندی کی جھومتی گاتی ہوئی یہ کلکاری

یہ دھوپ چھاؤں کے بادل یہ مخملی احساس
مچل رہے ہیں بہت پیار سے تمہارے پاس

مہکتے دل ہیں یہاں خوشبوئے محبت سے
خدا کے نور سے پیدا ہوئی حرارت سے

ہوا کا جھونکا جو کانوں میں اس کے بول گیا
تو اس نے چونک کے پلکوں کو اپنی کھول دیا

یہ وادیوں کا حسیں رنگ اس نے جب دیکھا
ہوئی یہ سوچ کے حیران اس نے اب دیکھا

بدن میں جتنے تھے احساس وہ مچلنے لگے
نظارے اس کی نگاہوں کے ساتھ چلنے لگے

یہ رنگ و نور کے قصے سمجھ میں آنے لگے
حسین آنکھوں میں کچھ خواب جھلملانے لگے

اور ایسے ہو کے مکمل وہ حسن کی مورت
کسی کے پیار کی خوشبو سے بن گئی عورت