تمہاری رضا کو لوگ
میری خطا کہتے ہیں
میرے ہاتھوں سے وہ پوشاک
چھین لی گئی
جو میں پہننے والی تھی
اور پہنی ہوئی پوشاک
میں اتار چکی تھی
میرے سارے آنے والے موسم
منسوخ کر دیے گئے تھے
میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا
اپنا سر تسلیم خم کر دیا تھا
مجھے اتنی ایذا دی گئی
کہ ارمانوں کا ریشم کاتنا
اب میری برداشت سے باہر ہے
اور پھر موسم منسوخ نہ ہوتے
پھول ریشم بٹورتے
میری عریانی ڈھک جاتی
تمہاری تابع داری میں
میں نے اپنی مٹھی کبھی کھول کر نہیں دیکھی
کون اپنے خواب کا
ایک ٹکڑا کاٹ کر
میری عریانی ڈھانپ دے گا
لاؤ میں اپنے ہاتھ کی لکیریں مٹا دوں
نظم
نظم
شبنم عشائی