میرے دکھوں کی گونج
تمہاری آواز سے سریلی ہے
تمہاری گویائی اب لوٹی ہے
جب من کے ساز سجائے تھے میں نے
کہ تم بولو تو دھن بن جائے
زندگی ایک گیت بن جائے
تم تغافل میں پڑے رہے
تمہاری آواز کی آرزو میں
میں نے ابھی تک
اپنے سفر کا آغاز نہیں کیا
لیکن بے شمار دکھ
میری جان سے گزرتے رہے
رقص کرتے رہے
اور وہ درد بھی جو میری ہم شیرہ نے
ذبح ہوتے ہوئے
میری آنکھوں میں رکھ دیا تھا
جب سے
دکھ جی رہی ہوں
میں تمہارے منصوبے کیا
خواب بھی نہیں جی سکتی

نظم
نظم
شبنم عشائی