پڑھ بھی رہے ہو
یا یوں ہی
میں اپنے ورق پلٹ رہی ہوں
کسی بھی اور صورت میں
میں تمہیں
سالم نہیں ملوں گی
آخری بار
تمہاری ہاتھ کی لکیریں
مجھے چھو رہی ہیں
پہلی بار
کسی خواہش نے
مجھے سہلایا ہے
کہ میں تمہارے من میں مجلد ہوں
آخری
یا
پہلے پنے کے بدن سے
کوئی لفظ پھیل بھی سکتا ہے
مجھے میری من کی قبر میں ہی
پڑھ لو
ناول نہیں
ایک درد ہوں میں
جو زندگی سے
زیادہ پتھریلا ہے
درد کبھی بھی تمہارے من سے مل سکتا ہے
بس طوفان کا
کوئی حلف نہیں اٹھانا
نظم
نظم
شبنم عشائی