وہ جوانی کے نشے میں لڑکھڑاتی ڈولتی جاتی حسینہ
میں ہوں اک پژمردہ و پامال سا
درماندگی کے قہر کا مارا ہوا بے حس مسافر
جس کی نظروں میں فقط اس کے تعاقب کی سکت باقی بچی ہے
پھر بھی میرے جسم کے اک زندہ اور جاوید حصے میں
یہ دھڑکنے کی صدا
ان کی شاکی ہے
جو کہتے ہیں کہ میرا جسم خاکی ہے
نظم
نظم
پریم کمار نظر