EN हिंदी
نظم | شیح شیری
nazm

نظم

نظم

محمد اظہار الحق

;

گھنے پیڑ شاخوں پہ بور اور اونچے پہاڑ
ہری جھاڑیاں اور سبزے کی موٹی تہیں

سڑک کے کناروں پہ کھمبوں کے تار ہوا سے ہلیں سرسرائیں
رسیلے جھکوروں میں وہ تیز نشہ کہ بس سو ہی جائیں

کسی ایک کو پیاس لگ جائے تو سب کے سب کھیلتے مسکراتے
نشیبی چٹانوں میں بہتے ہوئے میٹھے جھرنے کی جانب

چلیں اور ہاتھوں کے پیالے کو اک دوسرے کے لبوں سے لگا دیں
کبھی کوئی بس آئے اور جو بھی اترے خلوص و محبت سے احوال پرسی کرے

اور اسباب سر پر دھرے گاؤں کا راستہ لے
کبھی کوئی چرواہا کندھے پہ لاٹھی رکھے اور ہاتھوں کو لاٹھی پہ لٹکائے

آہستہ آہستہ ریوڑ لیے گزرے اور پوچھتا جائے
کیوں جی کہاں جا رہے ہو

کبھی دور کے کھیت سے اک مدھر تان اٹھے اور سب بھول جائیں
کہ کیا کہہ رہے تھے

پھر ابا نظر آئیں اور
کنکروں اور لکیروں کی دل چسپ معصوم بازی کو سب بھول جائیں

کوئی زین گھوڑے پہ کسنے لگے کوئی سامان اٹھائے
شہر سے آنے والے پھلوں کی مہک ہر طرف پھیل جائے

کھلونوں کی جھنکار دل میں عجب گدگدی سی مچائے
حویلی کے چوبی منقش بڑے در پہ دادی کھڑی منتظر ہوں

ناشتہ کب سے تیار ہے
آٹھ بجنے کو ہیں آج آفس نہیں

جائیں گے کیا