ہمارے شعروں میں مقتل کے استعارے ہیں
ہمارے غزلوں نے دیکھا ہے کوچۂ قاتل
صلیب و دار پہ نظمیں ہماری لٹکی ہیں
ہماری فکر ہے زخمی لہو لہان ہے فکر
ہر ایک لفظ پریشاں ہر ایک مصرعہ اداس
ہم اپنے شعروں کے مفہوم پر پشیماں ہیں
خدا کرے کہ جو آئیں ہمارے بعد وہ لوگ
ہمارے فن کی علامات کو سمجھ نہ سکیں
چراغ دیر و حرم سے کسی کا گھر نہ جلے
نہ کوئی پھر سے حکایات رفتگاں لکھے
نہ کوئی پھر سے علامات خونچکاں لکھے
فصیل دار سروں کے چراغ رقص جنوں
سراب تشنہ لبی خار آبلہ پائی
دریدہ پیرہنی چاک دامنی وحشت
سموم، آتش گل، برق، آشیاں، صیاد
روایتیں یہ مرے عہد کی علامت ہیں
علامتیں یہ مرے شعر کا مقدر ہیں
خدا کرے کہ جو آئیں ہمارے بعد وہ لوگ
ہمارے فن کی علامات کو سمجھ نہ سکیں
چراغ دیر و حرم سے کسی کا گھر نہ جلے
نہ کوئی پھر سے حکایات رفتگاں لکھے
نہ کوئی پھر سے علامات خونچکاں لکھے
نظم
نظم
ملک زادہ منظور احمد