جس کے شعروں کی لڑیاں۔۔۔
محبت کے ماتھے کا سنگھار تھیں
جس کے بے تاب جذبوں کی میٹھی کسک
لطف کی داستانوں کا عنوان تھی
جو گلابی رتوں کا مہکتا ہوا سرخ پیمان تھی
آج خاموش ہے۔۔۔
نفرتوں کے الاؤ سے اٹھتا دھواں
زرد شاموں کے اس ماتمی عہد کو۔۔۔
دے گیا ہے سلگتے لہو کی ہمک
پھول کا عشق پیشہ گلابی بدن
قبر کے زرد کتبے کا دربان ہے
تتلیاں مر چکیں!
چاند خاموش ہے۔۔۔
جگنوؤں کا قبیلہ سیہ پوش ہے
نظم کی شاعرہ!
مرثیے مانگتی، بے گناہی کا تازہ لہو تھوکتی
اڑتے بارود کے زہر سے کھانستی
ہانپتی کانپتی نظم کیسے لکھے
نظم
نظم کی شاعرہ
معصوم شیرازی