EN हिंदी
نظم | شیح شیری
nazm

نظم

نظم

فیض احمد فیض

;

سنو کہ شاید یہ نور صیقل
ہے اس صحیفے کا حرف اول

جو ہر کس و ناکس زمیں پر
دل گدایان اجمعیں پر

اتر رہا ہے فلک سے اب کے
سنو کہ اس حرف لم یزل کے

ہمیں تمہیں بندگان بے بس
علیم بھی ہیں خبیر بھی ہیں

سنو کہ ہم بے زبان و بے کس
بشیر بھی ہیں نظیر بھی ہیں

ہر اک اولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فرد عمل سنبھالے

اٹھے گا جب جسم سرفروشاں
پڑیں گے دار و رسن کے لالے

کوئی نہ ہوگا کہ جو بچا لے
جزا سزا سب یہیں پہ ہوگی

یہیں عذاب و ثواب ہوگا
یہیں پہ روز حساب ہوگا