عاشق وہ اہل ہوس کے بیچ میں دو ایک ایسی ٹرافیاں تھیں
سب کو یہ معلوم تھا ٹیمیں برابری کی رہیں گی
سب بدن کے حوصلے ہیں جیب کی کاری گری ہے
جو رٹائر ہو گیا وہ گیروے کپڑے پہن کر
روح کی مالا کے اک سو آٹھ دانے بیچتا ہے
سب بدن کے حوصلے تھے
پنشنیں تنخواہ کا اکثر تہائی ہی رہی ہیں
اور قیمت دھیرے دھیرے عمر کی صورت فلک کو چھو رہی ہے
ایک اور نو کی یہ نسبت
پوپلے منہ میں کسیلی راکھ ہی کا ذائقہ دیتی رہی ہے
وہ خدا کے نیک بندے ہیں کہ جن کی جیب میں پیسہ نہیں ہے
مفلسی کے بورڈ گھر گھر مفت بانٹے جا رہے ہیں
قبض سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے
لڑکیاں لپ اسٹک سنو اسکرٹس جینس مانگتی ہیں
جیب کی کاری گری تھی
سب بدن کے حوصلے تھے جیب کی کاری گری تھی
نظم
نظم
بمل کرشن اشک