نہیں میں کسی یونانی المیے کا
مرکزی کردار نہیں
نہ ہی میں اس لیے بنا تھا
میں تو ایک خاموش تماشائی ہوں
ہزاروں سال پتھروں میں جکڑے
کسی مرکزی کردار کی آنکھیں
جب شاہین سے نچوائی جاتی ہیں
اور جب وہ درد سے کراہ کر کہتا ہے
میں تمام پیار کرنے والوں کے لیے ایک کربناک منظر ہوں
یا سالہا سال سمندروں میں بھٹکنے والے سیاحوں سے
خدا جب ان کے گھر آنے کا دن چھین لیتا ہے
یا جب کوئی سرکش مرکزی یونانی کردار
اپنے آبائی خدا سے مسکرا کر کہتا ہے
تخلیق کے بعد مجھ پر تمہارا کوئی حق نہیں رہا
تو میں اپنے بغل والے معصوم تماشائی سے
ماچس مانگ کر اپنا سگریٹ سلگا لیتا ہوں
خدا یا یہ لوگ کتنے بے وقوف ہیں
مجھے زندگی کا کوئی تجربہ نہیں
شاید اپنی غلطیوں کو ہنس کر بھولنے کے فقدان کو تجربہ کہتے ہیں
یا پھر شاید اسی اختلاج کمتری کو
ذہن کے فریم میں بند رکھنے کو
شاید مجھے معلوم نہیں
یہ صدی درد زچگی سے کراہ رہی ہے
اور میں تواریخ کے شاطرانہ صحن میں
بیٹھا سوچ رہا ہوں
میں نہیں یہ دنیا ضعیف ہو گئی ہے
اور جلد ہی مر جائے گی
مگر مورخ میرے بارے میں کیا لکھیں گے
نظم
نظم
عین رشید