میری نظم کو دور سے دیکھو
دور سے محسوس کرو
اس سے بات مت کرو
اس کو چھونے کی ہوس کو
شامل کر لو
اپنے اک خواب میں
زیادہ مٹھاس
اور کڑواہٹ کا ذائقہ
ایک سا ہوتا ہے
تم اس نظم کو
اپنی کمر پر خشک گھڑا تصور کرو
تمہیں دور، صحرا سے پانی لینے جانا ہے
وہاں تمہیں دو آنکھیں ملیں گی
ان میں یہ نظم ہوگی
تم اس نظم کی آنکھوں سے
بہتے ہوئے آنسوؤں کو، اپنے بدن میں
شامل نہ کرنا
اداس ہو جاؤ گی
اور یہ نظم
تمہیں اداس ہوتے ہوئے
نہیں دیکھ سکتی
نظم
نظم
احمد آزاد