EN हिंदी
نظم | شیح شیری
nazm

نظم

نظم

زیف ضیاء

;

آج بہت سے لفظ جو رہ گئے تھے
اور وہ ٹھٹھرتے ہوئے حرف

جن کو یکجا کرنا بہ مشکل تھا
کچھ جذبات جو دل کے

دامن سے لگ کر سسک رہے تھے
سوچوں کا بے ہنگم ہجوم

جو دماغ کی حدود سے مسلسل ٹکرا رہا تھا
احساسات جن کی کوکھ میں

اداسی بے چارگی پست خالی نے جنم لیا تھا
ان میں کئی جذبے بھی تھے

جن کی دوران حمل ہی موت ہو گئی
کچھ ٹکڑے بھی تھے سیاہ بختی کے

کچھ رہزن بھی جو خیالات کی آبرو
لوٹ لیا کرتے تھے

آج ان رہزنوں کو سولی پر چڑھا دیا گیا
انصاف ہوا اور انصاف یہ ہوا کہ

تم دور بیٹھے دیکھ رہی تھی بہت خاموشی
اور دلچسپی کا موجد بنا کھیل کھیل کے لئے

آج ان سب لفظوں حروفوں احساسات
جذبات اور سوچوں کو

تیرے خیال سے غسل دیا
عرق گلاب جو تیری سوجی آنکھوں

سے بہہ رہا تھا
اس عرق کو لاشے پر چھڑکتے ہوئے

آج انہیں دفنا دیا گیا