EN हिंदी
نیا مکان | شیح شیری
naya makan

نظم

نیا مکان

مخمور جالندھری

;

چلو مکاں کی مصیبت سے بھی نجات ملی
یہ خواب گہ، یہ کچن، غسل خانہ اور بیٹھک

میں سوچتا ہوں مجھے سوچنے کو بات ملی
ہوئی ہیں صرف مشقت کی کوششیں ان تھک

نظر ربا در و دیوار کے بنانے میں
یہ قمقمے یہ تمدن کی اختراع جدید

بڑھی ضلالت ادراک تیرگی نہ مٹی
یہ سیڑھیاں ہیں نگاہوں کے پیچ کی مظہر

حیات کی کوئی پیچیدگی نہ دور ہوئی
مگر میں محو ہوں اوبار کے مٹانے میں

یہ سیڑھیاں ہیں جو ان پر سے گر پڑے کوئی
بری گھڑی نہ خدا لائے جانے کب آ جائے

یہ چکنا فرش اسے دیکھتا رہے کوئی
جو کل کو پاؤں تمہارا کہیں پھسل جائے

خدا کرم کرے میرا تو دم نکل جائے
میں سوچتا ہوں مجھے سوچ کا جنوں جو ہوا

یہ میرے ذہن کا ماحول پر فسوں جو ہوا
یہ میرا ذہن مجھے لے چلا ہے دور کہیں

وہاں جہاں کبھی پہلے بھی تھا مکاں اپنا
فلک کے سائے میں ہم تھے کبھی پناہ گزیں

یہ فرش خاک تھا قالین زر فشاں اپنا
یہ مہر و ماہ یہ تارے تھے اپنے گھر کے دیئے

گل و گیا سے ہے لبریز پر بہار زمیں
جلو میں حسن لیے دعوت نظر کے لیے

کبھی ہمارے لیے تھی نشست گاہ حسیں
یہ زلف پیچ سے بیگانہ موج صہبا تھی

کہ جس کا برسوں مری انگلیاں رہیں شانا
یہ تیری ہمدمی اک کیفیت تھی نشہ بھی

جہاں بھی چاہنا فوراً وہیں چلے جانا
وہ صبح ساحل دریا وہ شام زیر چنار

گزر گئی وہ مسرت کی صبح و شام اپنی
ہمارے دوش پہ جب تھا نہ جبر و قدر کا بار

چلو چلو یہ حکایت ہے تلخ کام اپنی
اٹھو اٹھو در و دیوار کو سجانا ہے

مکاں کو گہنوں لدی اک دلہن بنانا ہے