EN हिंदी
نیا حکم نامہ | شیح شیری
naya hukm-nama

نظم

نیا حکم نامہ

سلطان سبحانی

;

تغیر کا سیلاب آیا
تو زنجیریں ساری اٹھا لے گیا

شہنشاہیت کا
سنہرا سمندر ہوا لے گئی

اور سب کی نظر
ایک کالے عمامے کی جانب پر امید ہو کر اٹھی

سنا تھا کہ کالے عمامہ کے اندر
نئے موسموں کے

طلسمات خانوں کی سب کنجیاں ہیں
مگر اس عمامہ کے اندر

نیا حکم نامہ
بہت خوبصورت سے خنجر سے لپٹا ہوا سو رہا تھا

وہ جاگا
تو چاروں طرف

خون کی بدلیاں
قتل کی آندھیاں

شور کرنے لگیں
گنہ گار کیا

بے گناہوں کی ساری صفیں کٹ گئیں
خون ہی خون ہر سمت بہنے لگا

اور سب نے لہو کی فصیلوں سے دیکھا
کہ کالا عمامہ شہنشاہیت کا نیا اک سمندر

سنبھالے کھڑا تھا