کہیں دور بستی کی آغوش میں
وہ ہمکتا ہوا اک نیا گھر
اپنے اطراف سے بے خبر
ننھے بچے کے مانند ہنستا ہوا
اک نئے پن کی خوشبو میں بستا ہوا
ہمیشہ مجھے اور تم کو بلاتا رہے گا
اپنی مٹھی کے گھنگھرو بجاتا رہے گا
وہ نیا گھر جو میرا تمہارا نہیں تھا
کسی طور سے بھی ہمارا نہیں تھا
کوچہ کوچہ بھٹکتے ہوئے جس کے در پر
تھکے ہارے ہم تم شکستہ دل و خاک بسر
تن پہ بار ندامت اٹھائے ہوئے رک گئے تھے
اس کے دیوار و در فرش و آنگن
ہمیں دیکھ کر کس طرح جھک گئے تھے
اس کے پھیلے ہوئے بازوؤں نے
ہمیں اس طرح سے سمویا
اور ایسی جگہ دی
کہ چہروں کی مٹی رفاقت کی افشاں بنی
اور ندامت کی زردی نہ جانے کہاں مٹ گئی
مجھ کو ایسا لگا جیسے انمول موتی
تہہ آب سے موج در موج لڑتا ہوا
خود کنارے تک آئے
اپنا خاکستری خول سورج کی تحویل میں دے کے
ساری تھکن بھول جائے
پھر شعاع محبت سے سارا جہاں جگمگائے
میرے دل نے دعا دی خداوند برتر
اسی روشنی میں نہاتا رہے یہ نیا گھر
اپنی مٹھی کے گھنگھرو بجاتا رہے یہ نیا گھر
ہماری طرح دوسرے دل زدوں کو بلاتا رہے یہ نیا گھر
نظم
نیا گھر
زہرا نگاہ