میں بھی کچھ خواب سر شبر تمنا لے کر
سر میں عرفان غم ذات کا سودا لے کر
دل میں ارمان نہیں آگ کا دریا لے کر
آنکھ میں حسرت دیدار تماشہ لے کر
بس یوں ہی اٹھ کے چلا آیا تھا بے رخت سفر
گلاب جسموں کے سنگ سانسوں کا سوچتا تھا
غزال آنکھوں میں گھر بنانے کی آرزو تھی
کسی کی زلفوں میں سر چھپانا بھی چاہتا تھا
دل و نظر میں تمام منظر ہرے بھرے تھے
صدائے دل پر رواں دواں سا چلا تو تھا میں
مگر وہ منظر کہ جن مناظر میں دکھ رہا تھا نیا سویرا
وہ سارے منظر ہر ایک حسرت دھواں دھواں سی کہیں پہ غم ہے
مگر میں اب بھی دبی دبی سی صدائے دل ہی تو سن رہا ہوں
زمانہ لیکن اسی طرح سے رواں دواں ہے
اداس و بد دل نہ تھا نہ ہوں میں
یہیں سے مجھ کو نئے سفر کی نوید بھی ہے
نظم
نوید سفر
بدر واسطی