زیست اور موت کی سرد و ویران سی
دو قیامت نما سرحدیں
اور پہلو میں ان سرحدوں کے
وہ دھندلی سی بجھتی ہوئی اک لکیر
جس کی دہلیز پر آخری سانس لیتے ہوئے
روٹھ کر ہم سے کوئی
جو اس مختصر فاصلے سے گزر جائے گا
لوٹ کر وہ نہیں آئے گا
سرد راتوں میں ہم اس کو آواز دیں تو جواباً ہمیں
گونج کی صورت اپنی ہی آواز آتی رہے گی
موت کے سرد ہونٹوں پہ جنبش نہ ہوگی
پر انہیں سرد تاریک راتوں کے سینے پہ تم دیکھنا
کل ہمیں اک ستارا چمکتا نظر آئے گا
اور خاموشیوں میں ہمیں جا بجا ایک آہٹ سی محسوس ہوگی
نظم
نوحہ
یوسف راحت