وہی بادلوں کے برسنے کے دن تھے
مگر وہ نہ برسے
مبارک ہو شوریٰ کی صنعت گری کو
مشقت سے بیجوں کو تیار کر کے
اگائی تھی صحرا میں چوہوں کی کھیتی
جو آہستہ آہستہ بڑھتے رہے
پھر کھڑے ہو گئے اپنی دم کے سہارے
کترنے لگے ایسے پیاسی زبانوں کے نوحے جو مشکوں کے
اندر امانت پڑے تھے
خباثت نے اگلے تھے منحوس بھوتوں کے لشکر
کہ چوہوں کی امداد کرتے ہوئے نور کی بستیوں میں وہ داخل ہوئے
جو اڑاتے تھے گرد و غبار اپنے سر پر
پھٹے طبل کا شور گرتا تھا دل پر
بھیانک صداؤں میں بازو اٹھا کر
چلانے لگے رقص میں تیز پاؤں
تعفن میں لپٹے ہوئے سانس چھوڑے
بڑھے کچکچاتے ہوئے دانت اپنے ہزاروں طرف سے
فرشتوں نے دیکھا تو گھبرا گئے اور خستہ پیالوں کو ریتی سے بھر کر
سکڑنے لگے اپنے خیموں کی جانب
وہ ریتی کے ذرے جنہیں آب سورج کی کرنوں نے دی تھی
مگر وہ نہ برسے
وہی بادلوں کے برسنے کے دن تھے
نظم
نوحہ
علی اکبر ناطق