مجھے نعروں سے رغبت ہے
وہ میرے خون کی حدت کا باعث ہیں
وہ میری زندگی کا جزو لا ینفک
ہزاروں سال سے میرے ارادوں حوصلوں اور ولولوں کی
داستانوں میں نمایاں ہیں
وہ میری ذات کے آئینہ خانے میں مسلسل رقص کرتے ہیں
زمانے میری یادوں سے پھسل کر سامنے آئے
تو میں اک دشت امکاں سے نکل کر مسکرا اٹھا
مرے اطراف میں رنگوں کی بارش تھی
ہواؤں میں خوشی تحلیل ہو کر راحت جاں تھی
خنک پانی کے چشمے دودھ کی نہریں
مری خواہش پہ بہتے تھے
سبھی اسمار میرے اک اشارے پر مری جھولی میں آ گرتے
ہر اک جانب حسیں پھولوں کے تختے تھے
خراماں ساعتوں کی بیکرانی میرا حاصل تھی
خراماں ساعتیں لیکن مجھے کب راس آئی ہیں
سکوں لا حاصلی کا بے نتیجہ زندگی کا باب اول ہے
نتیجہ چاہیے
ہر شے کا اک آغاز اک انجام ہوتا ہے
اسی لمحے مری آنکھوں پہ اک کوندا سا لپکا تھا
اسی لمحے زباں پر ایک نعرہ تھا بغاوت کا
بغاوت کا کہ اپنی ذات کے اعلان کرنے کا
نظم
نتیجہ چاہیے ہر شے کا
فیاض تحسین