اور پھر کچھ یوں ہوا
لفظ کی تکرار سے
مرتعش اظہار سے
عقدۂ دشوار سے
شاعری اکتا گئی
شاعری کی بے کراں موج تخیل یوں اٹھی
تنگ نائے نظم و نغمہ گم ہوئی
امتیاز بحر و بر مٹتا گیا
اہتمام ذوق تر جاتا رہا
چشمۂ وہم و گماں
پھوٹتا ہے وادئ عجز بیاں کے وسط سے
پھیلتی ہے خیرگی
لمحۂ معکوس ہے
آب جوئے خواب ہے پیہم رواں
جھیل صورت حرف ساکت ہیں مگر
جھلملاتے ہیں معانی لفظ کے تالاب میں
بات گہری ہے بہت
ساز بھی خاموش ہے
گنجلک سنجوگ سے
موجب نا گفتنی
قابل اظہار ہے
ہاں مگر وہ شعریت
دور اک لایعنیت کے بے اماں پاتال میں
برسر پیکار ہے

نظم
نثری نظم کی منظوم کتھا
سلمان ثروت