وہ شام
جب سڑکیں گل سرخ سے بھری ہوئیں تھیں
ایوان انصاف پر اندھیرا اتر رہا تھا
میں نے
گردن اور کانوں کو کوٹ کے لمبے کالر میں چھپا لیا
تاکہ
باقی ماندہ لہو کی گردش چہرے تک نہ آ سکے
ابابیلیں
اپنے مسکنوں سے دیوانہ وار نکل آئیں
اور
گنبدوں میں بولنے والے کبوتروں نے چپ چاپ
اپنی چونچیں
خاموش تالاب میں ڈبو دیں
وہ شام
جب کھڑکیوں میں سب چہرے ایک جیسے نظر آنے لگیں
نظم
نشر مکرر
زاہد مسعود