EN हिंदी
نشہ باقی ہے | شیح شیری
nasha baqi hai

نظم

نشہ باقی ہے

خلیل مامون

;

کروں گا فتح کوئی شام تو میں اتروں گا الجھتی سانس کے کیکر سے اور
خوابوں سے رفت و بود کے اس پار

ابد کے حسن حریری کے سفید سے پھول اپنی پلکوں پہ چن سکوں گا میں
میں بن سکوں گا خود اپنا لباس خود اپنا تار نفس

نہ سن سکوں گا کوئی لفظ کوئی نظم اور کوئی آواز
سکوت ذات میں لمحوں کی چاپ تک نہ آئے گی

چمکتے ہوش و حواس تھک چکیں تو سواد شام میں
سوئے ہوئے شجر کے تلے پڑاؤ ڈالتے ہیں

پرانی یادوں کے رنگیں پرندے شجر سے نیچے اترتے ہیں
اداس آنکھوں کے پرانے گھر میں خیال و خواب

کا ملبوس پہنے آتے ہیں
میں ننھے طفل کے مانند انہیں پکڑنے کھلی نیم اجلی

وادیوں میں دوڑتا ہوں
کہیں پہ پیر پھسلتا ہے اور دھڑام سے نیچے کالی کھائیوں

میں ڈوبتا ہوں
آنکھ کھلتی ہے

چہار سمت اندھیرا ہے اندھیرے میں سپیدی
کوئی رنگ کوئی لباس نہیں

کوئی خوشبو کوئی باس نہیں
بڑی ہی دیر تلک گھورتے اندھیرے میں

رفتہ رفتہ گھلے ہیں سیاہی مجھ میں اور میں
سیاہی میں

اتھاہ نیند کے ساحل پہ ساری عمر کے داغ
تمام نسل کے سارے گناہ دھلتے ہیں

مگر حواس کہاں چھوڑتے ہیں جسم کے روگ
سویرے پہلی کرن روشنی کی جیسے ہی جھلملاتی ہے

خوابیدہ آنکھ کلبلاتی ہے
اتھاہ نیند کے ساحل پہ دھوپ پھیلتی ہے

داغ اجالوں میں پھر چمکنے لگتے ہیں
سارے گناہ اندھیری روح کے طاقوں پہ

پھر چراغ کی مانند جلنے لگتے ہیں
نہ شام فتح ہوئی اور نہ صبح فتح ہوئی

رات فتح ہوئی اور نہ بات فتح ہوئی
وہی ہوں میں وہی دن رات اور وہی من و تو

وہی زمانہ وہی یادیں اور وہی خواب
نشہ اترنے پہ وہی مخلوق اور وہی دنیا

وہیں ہیں موٹریں وہی راستے وہی شہر اور وہی گاؤں
وہی ہے بیوی وہی بچے وہی گھر اور وہی چھاؤں

کروں گا فتح کوئی شام تو میں اتروں گا
ترے کنارے (میرے روبرو) کہ جہاں

نہ کوئی صبح نہ شام اور نہ کوئی نیند نہ خواب
نہ کوئی رستہ نہ منزل نہ کوئی گھر ہے نہ گھاٹ!