نرم آوازوں سے اک نیلی خموشی ہے رواں
یک بہ یک اڑ گئے
وہ کالے پرند
جن کے سایوں سے شعاعوں میں تھی اک بے خوابی
اب وہی خفتہ مزاجی وہی بے حرف خمار
نرم آوازوں کی تھپکی سے
یہ سب ہوش و حواس
اپنے اظہار کے بہتے ہوئے دریا کی جگہ
برف کی جھیل بنے
چیخ جو نغمۂ آزاد سی لہراتی تھی
نغمہ میں غرق ہوئی
وصل کی شب میں وہی شمع بنی
تھرتھراتی ہی رہی
ہونٹ جو تیغۂ اعجاز پہ چسپاں تھے وہ سب
اک صحافی کا قلم بن کے رہے بے معنی
نرم آوازوں کے سیلاب میں اے کاش کبھی
حادثہ ہو کوئی کشتی کسی ساحل سے کہیں ٹکرا جائے
پھیلتی رات کبھی تھرا جائے
نظم
نرم آوازوں کے بیچ
اسلم عمادی