شہسوار
ننھا منا شہسوار
ایستادہ ہے
خمیدہ پشت پر میری
جوں ہی جھکتا ہوں
وہ ترغیب دیتا ہے
مجھے چلنے کی
آوازوں کی سرگم سے
میں چلتا ہوں
میں واماندہ قدم چلتا ہوں
وہ مہمیز کی جنبش سے کہتا ہے کہ دوڑو
اور دوڑو، تیز تر، سرپٹ چلو
باد نغمہ کار سے باتیں کرو
اس کا میں رخش رضا
تیز تر کرتا ہوں رفتار خرام
مجھ کو پہنچانا ہے آج
اس کو رنگوں تتلیوں کے دیس میں
جادو نگر میں
میرے سائے کا بھی اب شاید جہاں
منتظر کوئی نہیں
منتظر ہیں اس کے لیکن، میرے ننھے دوست کے
دیو قامت سبز وارفتہ وقار
دور تک سرگوشیاں کرتے ہوئے اشجار
رقص برگ و بار
جا رہا ہے خواب کی رفتار سے
دیوانہ وار
میرا ننھا شہسوار
نظم
ننھا شہسوار
بلراج کومل