مرے گھر کی دیوی کے بالائے سینہ
کھلا ہے محبت کا تازہ کنول
درخشندہ جیسے سر شام زہرہ
افق پر سمندر کے آئے نکل
وہ ہاتھوں پہ اپنے کھلاتی ہے اس کو
وہ پیروں پہ اپنے جھلاتی ہے اس کو
وہ رکھتی ہے آنکھوں میں پتلی بنا کے
وہ سوتے میں روتا جو اٹھ بیٹھتا ہے
تو بوسوں سے موتی سے آنسو وہ پونچھے
وہ سو جان سے ہر ادا پر فدا ہے
وہ ہے لال دونوں جہاں جس پہ صدقے
یہ ننھی سی جاں اور غاصب کے دعوے
مرا تخت زریں ہے تیرے حوالے
ترے دست و بازو فرشتوں کے دستے
تو ہے وہ زبردست جیتے پہ جیتے
نظم
ننھا غاصب
عظمت اللہ خاں