خاموش مہیب رات کا
دل دھڑکتا ہے
اندھیرے کے زبردست ہاتھ نے
میری آنکھوں سے نیند گھسیٹ لی ہے
اس وحشی سناٹے میں
ہوا کی دوزخی لہروں پر تڑپتی ہوئی
ایک فریاد
مجھ تک پہنچتی نہ تھی
حلق پر
غیر مرئی ناخنوں کے دباؤ سے
میں کسی اوک زبان میں
گالیاں دیتا ہوں
چند لمحوں کے بعد
کسی غیر فطری غفلت کے پنجے مجھے جکڑ لیتے ہیں
اس طرح مجھے رہائی ملتی ہے
میں آزاد ہو جاتا ہوں
نظم
نجات
جاوید ناصر