EN हिंदी
نجات | شیح شیری
najat

نظم

نجات

جمیل الرحمن

;

دکھتے ہوئے سینوں کی خوشبو کے ہاتھوں میں
ان جلتے خوابوں کے لہراتے کوڑے ہیں

جنہیں وہ اک گہنائے چاند کی ننگی کمر پہ برساتی رہتی ہے
تیرگی بڑھتی جاتی ہے

اور ہمارا چاند ابھی تک ایسی کہنہ سال حویلی کا قیدی ہے
جسے ہوا اور بادل نے تعمیر کیا ہے

جس کی گیلی دیواروں پر منڈھی ہوئی بیلوں میں
ایسی کھوپڑیاں کھلتی ہیں

جن کی آنکھوں کے خالی حلقوں میں ماضی حال اور مستقبل کے
گڈمڈ رنگوں کے بے نور دھندلکے جمے ہوئے ہیں

تم ہی بتاؤ جب شاخوں سے
فاختئی نیلے پھولوں کی بجائے

کھوپڑیاں پھوٹیں
صبح بہار کا سورج ان سے آنکھ ملا کر کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟

اسی لیے تو اس ویران حویلی کے آنگن میں خزاں کے نغمے
زندہ انسانوں کے نوحے بن کر گونجتے ہیں

نم آلود فضا کے نادیدہ سینے پر
صبر کی سل کی طرح رکے ہوئے برفیلے سورج

شام کی اکھڑی ہوئی چوکھٹ پر
اپنے سر گھٹنوں میں چھپا کر سوچتے ہیں

کبھی تو صدیوں کی آوارگیوں کا بوجھ اٹھائے کوئی مسافر
اسم رہائی کو زیر لب دہراتے ہوئے

اس بے رنگ حویلی کے دروازے پر
وہ دستک دینے آئے گا

کھل کر بارش برسے گی اور چاند رہا ہو جائے گا