EN हिंदी
نئی صبح | شیح شیری
nai subh

نظم

نئی صبح

کیفی اعظمی

;

یہ صحت بخش تڑکا یہ سحر کی جلوہ سامانی
افق سارا بنا جاتا ہے دامان چمن جیسے

چھلکتی روشنی تاریکیوں پہ چھائی جاتی ہے
اڑائے نازیت کی لاش پر کوئی کفن جیسے

ابلتی سرخیوں کی زد پہ ہیں حلقے سیاہی کے
پڑی ہو آگ میں بکھری غلامی کی رسن جیسے

شفق کی چادریں رنگیں فضا میں تھرتھراتی ہیں
اڑائے لال جھنڈا اشتراکی انجمن جیسے

چلی آتی ہے شرمائی لجائی حور بیداری
بھرے گھر میں قدم تھم تھم کے رکھتی ہے دلہن جیسے

فضا گونجی ہوئی ہے صبح کے تازہ ترانوں سے
سرود فتح پر ہیں سرخ فوجیں نغمہ زن جیسے

ہوا کی نرم لہریں گدگداتی ہیں امنگوں کو
جواں جذبات سے کرتا ہو چہلیں بانکپن جیسے

یہ سادہ سادہ گردوں پہ تبسم آفریں سورج
پے در پے کامیابی سے ہو ستالن مگن جیسے

سحر کے آئنہ میں دیکھتا ہوں حسن مستقبل
اتر آئی ہے چشم شوق میں کیفیؔ کرن جیسے