نہ میرے زہر میں تلخی رہی وہ پہلی سی
بدن میں اس کے بھی پہلا سا ذائقہ نہ رہا
ہمارے بیچ جو رشتے تھے سب تمام ہوئے
بس ایک رسم بچی ہے شکستہ پل کی طرح
کبھی کبھار جواب بھی ہمیں ملاتی ہے
مگر یہ رسم بھی اک روز ٹوٹ جائے گی
اب اس کا جسم نئے سانپ کی تلاش میں ہے
مری ہوس بھی نئی آستین ڈھونڈھتی ہے
نظم
نئی آستین
شکیل اعظمی