EN हिंदी
نغمۂ دل سوز | شیح شیری
naghma-e-dil-e-soz

نظم

نغمۂ دل سوز

راج بہادر سکسینہ اوجؔ

;

ہے مزاج اس وقت کچھ بگڑا ہوا صیاد کا
اے اسیران قفس موقع نہیں فریاد کا

کتنا درد آمیز تھا نغمہ دل ناشاد کا
تیر ترکش میں تڑپ اٹھا ستم ایجاد کا

داستان‌ عالم فرقت کسی سے کیا کہیں
ہو گیا برباد ہر ذرہ دل ناشاد کا

آپ کو ملنا نہیں منظور لو مرتا ہوں میں
منتظر بیٹھا ہوا تھا آپ کے ارشاد کا

اے دل ناشاد مجھ کو تیری وحشت دیکھ کر
یاد آ جاتا ہے قصہ قیس اور فرہاد کا

آئے وہ بہر عیادت ڈال کر رخ پر نقاب
رہ گیا ارمان دل میں عاشق ناشاد کا

آپ فرماتے ہیں تو نے رات کو نالے کئے
بندہ پرور اوجؔ تو عادی نہیں فریاد کا