EN हिंदी
نگر نگر | شیح شیری
nagar nagar

نظم

نگر نگر

منیب الرحمن

;

ترا دھیان لیے میں نگر نگر گھوما
شریک حال تھی تیری نظر کی پہنائی

کہ آسمان و سمندر جگا دیے جس نے
فضا میں ابر کے پیکر بنا دیے جس نے

کبھی جو بیٹھ گیا میں شجر کے سائے میں
تو میرے چہرے کو چھونے لگیں تری سانسیں

ہزار باتیں تھیں پتوں کے سرسرانے میں
ہزار لمس تھے جس وقت جھک گئیں شاخیں

دم غروب گیا بزم میں حسینوں کی
بتائیں ساعتیں صحبت میں نازنینوں کی

ہر آئنے سے جھلکتا ترا گداز بدن
وہ جھولتے ہوئے فانوس تیرے آویزے

وہ موج رنگ ترا شبنمی سا پیراہن
تجھے پکارے گی راتوں کو میری تنہائی

یہ بھوک روح کی یہ اشتہائے بے آرام
جو ایک مرگ مسلسل ہے ایک سوز دوام