EN हिंदी
نفی سارے حسابوں کی | شیح شیری
nafi sare hisabon ki

نظم

نفی سارے حسابوں کی

راجیندر منچندا بانی

;

لپکتا سرخ امکاں
جو مجھے آئندہ کی

دہلیز پر لا کر کھڑا کرنے کی خواہش میں
مچلتا ہے

مرے ہاتھوں کو چھو کر
مجھ سے کہتا ہے

تمہاری انگلیوں میں
خون کم کیوں ہے

تمہارے ناخنوں میں زردیاں کس نے سجائی ہیں
کلائی سے

نکلتی ہڈیوں پر
اون کم کیوں ہے

میں اس سے
ناتواں سی اک صدا میں

پوچھتا ہوں
اس سے پہلے تم کہاں تھے

اس سے پہلے بھی یہی ساری زمینیں تھیں
یہی سب آسماں تھے

اور میری آنکھ میں
نیلے، ہرے کے درمیاں

اک رنگ شاید اور بھی تھا
اب مرے اندر نہ جھانکو

میرے باطن میں مسلسل تیرتی ہے اونگھتی دنیا سرابوں کی
نفی سارے حسابوں کی