اس کا اقرار کر کے
اسے ڈھونڈنے چل پڑا
شہر میں دشت میں
کوہ و دریا میں، میں
مدتوں مارا مارا پھرا
لیکن اس کا نشاں
میری نظروں سے
اوجھل تھا اوجھل رہا
آخرش تھک کے جب سو گیا
میں کسی موڑ پر
تو مرے پردۂ خواب پر
ایک تحریر مجھ سے
مخاطب ہوئی اس طرح
تیرا اقرار بالکل بجا ہے
مگر یاد رکھ
ایک انکار بھی
جزو لازم ہے
مذکورہ اقرار کا
اس لیے غیرممکن ہے تکمیل
تیرے اس اقرار کی
جب تلک
اس کی بنیاد قائم نہ ہو
جزو انکار پر
نامکمل ہے اقرار جب تک ترا
غیرممکن کہ پائے تو اس کا پتا!
نظم
نفی و اثبات
ارشد کمال