کامنی خواب کی لو میں ہنستی ہوئی کامنی
سولہ برس کی تقویم میں فصل گل کا کوئی تذکرہ
تک نہ تھا
میں نے بتیس بتیس جھڑ رتیں کاٹ دیں
اب جو تمثیل کے ایک وقفے میں تم سے ملا ہوں
تو سانسوں میں نم چال میں ان زمانوں کا رم
جی اٹھا ہے
جو عہد زمستاں میں یخ تھے
سقر سا سقر
کامنی خندۂ گل کی کل زندگی
ایک گلچیں کی وحشت بھری آنکھ ہے
یہ چٹکنا یہ کھلنا
بہت سحر آور سہی جاگنے اور سونے میں اک
خواب موہوم سے کچھ زیادہ نہیں
خواب و خواہش عجب سلسلہ ہے
بہت دور بہتی ہوئی آبشاروں کا اک سلسلہ
جس میں کوہ تذبذب کی خوشبو بھی ہے
عہد و پیماں کا جادو بھی
خوں سے سروں تک
سروں سے اس اک لفظ تک
جس میں راگوں کا جوہر بندھا ہے
کہیں ایمنی رس کہیں ماروا ٹھاٹھ بھاگیشری
بھیرویں اور پہاڑی
وہ سب کچھ جو اپنے لہو میں دہکتا چہکتا ہے
جس کے تناظر میں ہم بیست و شش سال
پہلے بندھے تھے
انہی آبشاروں سے مجھ کو صدا آ رہی ہے
سو میں جا رہا ہوں
نئے سر اٹھانے
کہ سرگم کی فرسودگی دیدہ و دل بجھانے لگی ہے
نیا سر جسے لفظ ترتیب دیتے ہیں
پہنچے تو جانو کہ صانع کے لفظوں سے اٹھتی نمی تم
تک آئی
پس عمر کا حاصل فن جیسے صرفۂ جاں
کہیں کچھ نہیں
بیست و شش سال در خدمت فن بسر کردہ ام
بہ چشم نم اوراق تر کردہ ام
در فقیری گزر کردہ ام
حرف سر کردہ ام
یہ جو لفظوں کی پیغمبری ہے نہ ہوتی تو عبرت
سرا میں بھلا کون جیتا
میں لفظوں میں سسکارتا ہوں
سنا تم نے سر
نغمۂ تازہ کا یہ کتنے قرنوں سے دل میں کسی
سل کی صورت جما تھا
یہ جوئے رواں تم تک آئی مگر کتنے
خورشید و مہتاب آہنگ
بنتے ہوئے بجھ گئے
کتنے دن گل ہوئے
کتنی راتیں ڈھلیں
خیر کیسا حساب
ایسے نغموں میں خوں اور چراغوں کے روغن کا ایک
پرسہ کسے دوں
بھلا کوئی عزا دار ہے
پرسہ داروں کی تمثیل میں کوئی وقفہ نہیں
نظم
نئے سر کی تمثیل
اختر عثمان