EN हिंदी
نئے سمے کی کوئل | شیح شیری
nae samay ki koyal

نظم

نئے سمے کی کوئل

بقا بلوچ

;

پھیل رہی ہے چاروں جانب
نئے سمے کی سندر خوشبو

آنے والے کل کی قسمت
نہ میں جانوں نہ جانے تو

سبزہ رنگت تتلی جگنو
جانے کب سے چمک رہے ہیں

پیڑ کی ہر اک شاخ پہ آنسو
اور اس پیڑ کی اک ڈالی پر

کوئل کرتی جائے کو کو
کوئل کرتی جائے کو کو

دیکھتی جائے یونہی ہر سو
وقت کو جاتے دیکھ رہی ہے

اور یہ بیٹھی سوچ رہی ہے
گزرے سال نے کیا بخشا ہے

اگلے سمے میں کیا لکھا ہے
پچھلے سال کے باشندے تو

اب بھی سزائیں کاٹ رہے ہیں
اک دوجے کے سوگ میں بیٹھے

اپنے لہو کو چاٹ رہے ہیں
دیکھیں اگلے سال میں کیا ہو

پیڑ کی شاخوں پر کیا ہوگا
شبنم تارے جگنو آنسو

کوئل بیٹھی سوچ رہی ہے
وقت کو جاتے دیکھ رہی ہے

کوئل کرتی جائے کو کو