EN हिंदी
نئے لوگ | شیح شیری
nae log

نظم

نئے لوگ

عزیز قیسی

;

وہ اب کے آئے تو سچ ان کے ساتھ تھا لیکن
عجیب طرح کا بے درد سچ تھا

کہتے تھے تمہارا جھوٹ ہے ننگا یہی تو اک سچ ہے
ہم ان سے کہہ نہ سکے

ہمارے اذن پہ جو قصروبام اگاتا تھا
وہ جن ہمیں میں تھا وہ مر چکا ہے ہم لیکن

جئیں تو کیسے جئیں
اور مریں تو کیسے مریں

کہ تن‌ برہنہ پڑے ہیں
نہ جانے کون سا ہے دشت سمت ہے نہ افق

بس ایک منظر بے رنگ و صوت ہے اس کو
خلا کہیں کہ عدم

وہ ہم سے صدیوں پرانا چراغ چھین گئے
نئے چراغ پرانے چراغ کے بدلے

وہ کاش اب کے بھی ایسا فریب دے جاتے