مہرباں دن وہ مرا درد شناس
اپنی زنبیل کے صد رنگ ذخیرے سے مجھے
روز دیتا رہا سوغات نئی
مجھ پہ کرتا رہا ہر روز عنایات نئی
دل کو برماتا رہا
خوں کو گرماتا رہا
آئی جس وقت مگر رات نئی
اپنا سرمایہ سمیٹے ہوئے مستور ہوا
دل مرا فیض گریزاں سے شکستہ خاطر
شب کے زنداں میں گرفتار
غریب و نادار
اک نئے خوف کے آزار سے معمور ہوا
نظم
نئے خوف کا آزار
اکبر حیدرآبادی