EN हिंदी
نامۂ جاناں | شیح شیری
nama-e-jaanan

نظم

نامۂ جاناں

احمد فراز

;

مدتوں بعد ملا نامۂ جاناں لیکن
نہ کوئی دل کی حکایت نہ کوئی پیار کی بات

نہ کسی حرف میں محرومئ جاں کا قصہ
نہ کسی لفظ میں بھولے ہوئے اقرار کی بات

نہ کسی سطر پہ بھیگے ہوئے کاجل کی لکیر
نہ کہیں ذکر جدائی کا نہ دیدار کی بات

بس وہی ایک ہی مضموں کہ مرے شہر کے لوگ
کیسے سہمے ہوئے رہتے ہیں گھروں میں اپنے

اتنی بے نام خموشی ہے کہ دیوانے بھی
کوئی سودا نہیں رکھتے ہیں سروں میں اپنے

اب قفس ہی کو نشیمن کا بدل جان لیا
اب کہاں طاقت پرواز پروں میں اپنے

وہ جو دو چار سبو کش تھے کہ جن کے دم سے
گردش جام بھی تھی رونق مے خانہ بھی تھی

وہ جو دو چار نواگر تھے کہ جن کے ہوتے
حرمت نغمہ بھی تھی جرأت رندانہ بھی تھی

کوئی مقتل کوئی زنداں کوئی پردیس گیا
چند ہی تھے کہ روش جن کی جداگانہ بھی تھی

اب تو بس بردہ فروشی ہے جدھر بھی جاؤ
اب تو ہر کوچہ و کو مصر کا بازار لگے

سر دربار ستادہ ہیں بیاضیں لے کر
وہ جو کچھ دوست کبھی صاحب کردار لگے

غیرت عشق کہ کل مال تجارت میں نہ تھی
آج دیکھو کہ ہیں انبار کے انبار لگے

ایسا آسیب زدہ شہر کہ دیکھا نہ سنا
ایسی دہشت ہے کہ پتھر ہوئے سب کے بازو

در و دیوار خرابات وہی ہیں لیکن
نہ کہیں قلقل مینا ہے نہ گل بانگ سبو

بے دلی شیوۂ ارباب محبت ٹھہرا
اب کوئی آئے کہ جائے ''تنناہو یاہو''