EN हिंदी
نام اس کا | شیح شیری
nam us ka

نظم

نام اس کا

بمل کرشن اشک

;

نام جب لیتا ہوں ہونٹوں پر زباں کو پھیرتا ہوں کیوں کہ
اس کے نام میں اس کی زباں اس کے لبوں کا ذائقہ ہے

جب بدن وہ نام لیتا ہے تو ایسے جھنجھناتا ہے کہ جیسے
اس کی زہری انگلیوں نے چھو لیا ہو

نام اس کا اس کے اپنے بازوؤں کے دائرے کی طرح
شوریدہ بدن کو گھیرتا ہے

نام اس کا پانیوں میں گھول کر پی لو زباں لکنت زدہ
ہو جائے ہے، آنکھیں الگ چڑھ جائیں ہیں، جی کچھ کہے

لب کچھ کہے ہے،
نام اس کا زانوئے ناکتخدائی پر لکھے سے چھاتیوں

میں دودھ چھلکانے لگے ہیں
نام اس کا سیاہیوں میں گھولنے سے شعر لافانی لکھے ہے

نام بنجر دھرتیوں میں تھوڑا تھوڑا سا چھڑک دینے سے
ہر پل بیل بوٹے کھینچ دے ہے

نام اس ہرجائی کا لینے سے ہر سانکل کھلے ہے
اس کو اس کے نام سے آواز دے دیجے تو چاروں سمت

جو کوئی سنے ہے اس کے لاکھوں نام دہرانے لگے ہے
اور کبھی اس نام کے سنتے ہی اندر سے کوئی پوچھے ہے

کس کا نام لو ہو
اور تب احساس ہووے ہے کہ اس کا ہو کہ اپنا ہو

وہی اک نام تو ہے
اور تب احساس ہووے ہے وہ ہم میں ہے کہ اس کا نام

ہم ہیں
اور تب احساس ہووے ہے کہ یوسف سے زلیخا شام سے

رادھا کے ہجے ہی جدا ہیں ورنہ چاروں
کا تماشہ ایک سا ہے