اے مرا نام و نسب پوچھنے والے سن لے
میرے اجداد کی قبروں کے پرانے کتبے
جن کی تحریر مہ و سال کے فتنوں کی نقیب
جن کی بوسیدہ سلیں سیم زدہ شور زدہ
اور آسیب زمانے کہ رہے جن کا نصیب
پشت در پشت بلا فصل وہ اجداد مرے
اپنے آقاؤں کی منشا تھی مشیت ان کی
گر وہ زندہ تھے تو زندوں میں وہ شامل کب تھے
اور مرنے پہ فقط بوجھ تھی میت ان کی
جن کو مکتب سے لگاؤ تھا نہ مقتل کی خبر
جو نہ ظالم تھے نہ ظالم کے مقابل آئے
جن کی مسند پہ نظر تھی نہ ہی زنداں کا سفر
اے مرا نام و نسب پوچھنے والے سن لے
ایسے بے دام غلاموں کی نشانی میں ہوں
نظم
نام و نسب
علی اکبر ناطق