صدر دروازے پہ اک نام کا پتھر ہے ابھی
لوح مرمر پہ ہے یہ نام جلی حرفوں میں
میرے دادا سے ہے یہ نام جلی حرفوں میں
یہ حویلی، یہ سن و سال کی تعمیر قدم
اس میں کچھ لوگ رہا کرتے تھے
آج تک سائے یہاں ان کے پھرا کرتے ہیں
دل کو ہر بار گماں ہوتا ہے
میرے ماں باپ، مرے بھائی بہن
روزنوں سے نہ کہیں جھانک رہے ہوں مجھ کو
اس سے وابستہ ہیں کتنی باتیں
شادیاں اس میں رچائی گئیں، شہنائی بجی
لوگ اکٹھے ہوئے پکوان لگے
اور ہاں اس سے جنازے بھی اٹھے
درد مندوں کی، عزا داروں کی
مرنے والے کے لیے
آہ و زاری کی صدائیں گونجیں
دور افتادہ لڑکپن کی پکار
عمر کی کھوئی ہوئی راہوں سے
کھینچ لائی ہے مجھے
ایک مکڑی کی طرح
نظم
نام کا پتھر
منیب الرحمن