میں کیسے بتاؤں تم بتاؤ
کس طرح یہ دن گزر رہے ہیں
توہین حقارتیں تنفر
کس کس سے نباہ کر رہا ہوں
یوں فیض خرد سے بہرہ ور ہوں
ہر ایک فریب وہم تج کے
اس رات یہ سوچنے لگا ہوں
میں معتقد پناہ ہوتا
اتنا تو نہ رو سیاہ ہوتا
شکر اور شکایتیں دعائیں
میرے لیے کوئی آستانہ
تاثیر دہ فغاں نہیں ہے
جز جبر نفس یہ زندگانی
تم کو تو خبر ہے کچھ نہیں ہے
ہر رشتہ جہاں کا افترا ہے
ہر جھوٹ یہاں کا حق نما ہے
تم کو تو خبر ہے اس جہاں میں
دل کا کوئی آشنا نہیں ہے
دل کا کوئی آسرا نہیں ہے
اک تم تھے سو تم بھی چھپ گئے ہو
اب میرا کوئی خدا نہیں ہے!
نظم
نالۂ بے آسماں
عزیز قیسی