تم جو مغرب کی جگالی سے کبھی تھکتے نہیں
تم کو کیا معلوم ہے تخلیق کا جوہر کہاں
فلسفی بنتے ہو اپنے آپ سے پوچھو کبھی
کھو گیا ہے روح کا گوہر کہاں
تم دل و جاں سے مشرق کی پرستاری کرو
کیا برہمن کے سوا کچھ اور ہو
کیا کسی کی مشرق و مغرب میں دل داری ہوئی
بھوک سے بے حال ہیں جو ان کی غم خواری ہوئی
عدل کی میزان جب ٹوٹی پڑی ہو درمیاں
زندگی ساری کی ساری ہی ریاکاری ہوئی
مغرب و مشرق کی ساری بحث میں تم ناامیدی کے سوا کیا دے سکے
ناامیدی کفر ہے
کفر سے بچتے بھی اور کفر ہی کرتے ہو تم
تم تو ماضی حال و مستقبل کے بھی قائل نہیں
دل کہے کچھ بھی مگر تم اس طرف مائل نہیں
وہ جو مطلق ہے تمہارے واسطے سارے زمانے دے گیا
تم بتاؤ تم نے اب تک کیا کیا
ناامیدی کفر ہے کفر ہی کرتے ہو تم
دل میں گر روشن ہو اس دن کی امید
جستجو تم کو جب اپنے آپ سے ملوائے گی
زندگی کرنے کو پیارے شش جہت کھل جائے گی
نظم
ناامیدی کفر ہے
انجم اعظمی