نزہت شام نے جب رخت سفر باندھ لیا
درد نے روح کو بیداری کا پیغام دیا
آہ ناسور وفا
گھر سے ہم عشرت آزاد کے شیدا نکلے
ہو کے جاں سوزی تنہائی سے پسپا نکلے
لے کر اپنے دل بیمار کو تنہا نکلے
سوچ رکھا تھا کہ اب یوں اسے بہلائیں گے
رقص میں مے میں کسی ساز میں کھو جائیں گے
ہوش سے آج تو محروم سے ہو جائیں گے
تاکہ ہو جنس تمنا کے فسوں سے چھوٹے
مصلحت کوش بنے قید جنوں سے چھوٹے
سر سے دل دارئ آزاد کا سودا نکلے
درد مٹ جائے تری یاد کا کانٹا نکلے
لیکن اس شومیٔ تقدیر کا کیا ہو شکوہ
سر ہی جب ناز گہ وار سے اونچا نکلے
نظم
نارسائی
عرش صدیقی